فتاویٰ رضويه جلد نہم باب الجنائز
(۲) جنازے اٹھانے میں کس طرف سے سبقت کی جائے؟
"
فتاویٰ رضويه جلد نہم باب الجنائز
اس کے رَد میں مولٰنا عبدالواحد صاحب مجددی رام پوری کا رسالہ''وثیقہ بہشت '' اس ساتھ تھا، تحریر فقیر بر''وثیقہ بہشت''۔
"
فتاویٰ رضويه جلد نہم باب الجنائز
(۲) میّت والے کے یہاں کیا روٹی پکانا منع ہے؟
"
فتاویٰ رضويه جلد نہم باب الجنائز
فتاویٰ رضويه جلد نہم باب الجنائز
فتاویٰ رضويه جلد نہم باب الجنائز
فتاویٰ رضويه جلد نہم باب الجنائز
فتاویٰ رضويه جلد نہم باب الجنائز
فتاویٰ رضويه جلد نہم باب الجنائز
فتاویٰ رضويه جلد نہم باب الجنائز
(۲) بعد نہلانے کے میّت کے پانی یا دوا یا پاخانہ مُنہ یا پاخانہ کی جگہ سے نکلے تو غسل دوبارہ دیا جائے گا یا جگہ پاک کی جائے گی؟
(۳) میّت نہلاتے وقت کس طرح سر پیر ہونا بہتر ہے؟
"
فتاویٰ رضويه جلد نہم باب الجنائز
فتاویٰ رضويه جلد نہم باب الجنائز
فتاویٰ رضويه جلد نہم باب الجنائز
فتاویٰ رضويه جلد نہم باب الجنائز
فتاویٰ رضويه جلد نہم باب الجنائز
فتاویٰ رضويه جلد نہم باب الجنائز
فتاویٰ رضويه جلد نہم باب الجنائز
فتاویٰ رضويه جلد نہم باب الجنائز
فتاویٰ رضويه جلد نہم باب الجنائز
فتاویٰ رضويه جلد نہم باب الجنائز
فتاویٰ رضويه جلد نہم باب الجنائز
مشہور خدمت جناب صاحب حجتِ قاہرہ مجددِ ماتہ حاضرہ مولٰنا مولوی احمد رضاخان صاحب دام ظلمکم علٰی راس المستر شدین بعد سلام سنتہ الاسلام عرض ہے کہ اس ملک میں جنازہ کے آگے مولود خوانی میں اختلاف اور جھگڑا ہے ایک طائفہ بحرالرائق ومراقی الفلاح و قاضی خان و عالمگیری وغیرہا کی عبارات سے مکروہ تحریمی کہتے ہیں، اوردوسری جماعت جائز و مستحب کہتی ہے، آپ کی تحریر پر جملہ مسلمانوں کا فیصلہ ہے کئی ماہ کے تنازع کا فیصلہ ہوگا۔ عبارات فریق قائل کراہت ۔ردالمحتار :قیل تحریما وقیل تنزیھا کمافی البحرعن الغایۃ وفیہ عنھا وینبغی لمن تبع الجنازۃ ان یطیل الصمت وفیہ عن الظھیریۃ فان ارادان یذکراﷲتعالٰی یذکرفی نفسہ لقولہ تعالٰی انہ لایحب المعتدین ای الجاھرین بالدعاء قلت اذاکان ھذافی الدعاء والذکر فماظنک بالغناء الحادث فی ھذاالزمان ۱؎ ۔کہا گیا کہ مکروہِ تحریمی ہے اور کہاگیا کہ تنزیہی جیساکہ بحر میں غایہ سے منقول ہے، اور اُس میں اسی سے یہ بھی ہے : جنازہ کے پیچھے چلنے والے کو برابر سکوت رکھنا چاہئے ،اور اسی میں ظہیریہ سے ہے : اگر اﷲ تعالٰی کا ذکر کرنا چاہے تو دل میں کرے اس لئے کہ باری تعالٰی کا ارشاد ہے : وُہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتا--یعنی دُعامیں جہر کرنے والوں کو-- میں کہتاہوں یہ جب دعاوذکر کا حکم ہے تواُس نغمہ اور گانے کا کیا حال ہوگا جواس زمانے کی پیداوار ہے--
(۱؎ ردالمحتار باب صلٰوۃ الجنائز مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المصریہ مصر ۱ /۵۹۸)
بحرالرائق ینبغی لمن تبع الجنازۃ ان یطیل الصمت ویکرہ رفع الصوات بالذکر وقراءۃ القراٰن ۱ الخالبحرالرائق میں ہے جنازہ کے پیچھے چلنے والے کو طول سکوت اختیار کرنا چاہئے اور بلند آواز سے ذکر وتلاوت قرآن مکروہ ہے الخ(ت)
(۱؎ بحرالرائق کتاب الجنائز فصل السلطان احق بصلٰوتہ مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۲ /۱۹۲)
عبارت فریق قائل بحلت عن ابن عمر رضی اﷲتعالٰی عنہما لم یکن یسمع من رسول اﷲصلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم وھو یمشی خلف الجنازۃ الاقول لا الٰہ الااﷲ اخرجہ ابن عدی فی ترجمۃ ف براہیم بن ابی حمید وضعفہ، تخریج احادیث الھدایۃ لابن حجر۲؎ ۔حضرت ابن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے مروی ہے: جب رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم جنازہ کے پیچھے چلتے تو حضورسے کلمہ لا الٰہ الااﷲکے سوا کچھ نہ سُنا جاتا --ابن عدی نے ابراہیم بن ابی حمید کے حالات میں اس کی تخریج کی ہے اور اسے ضعیف کہا ہے ۔تخریج احادیث ہدایہ ازعلامہ ابن حجر (ت)یعنی اس سے ادنٰی جہر ثابت ہوتا ہے وغیرہ ۔ بینواتوجروا
(۲؎ الکامل فی ضعفاء الرجال ترجمہ ابراہیم بن احمد کے تحت مطبوعہ دارالفکر بیروت ۱/۲۶۹
صحیح بخاری کتاب الحیض مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/۴۴)
ف:ھو ابراھیم بن احمد الحرانی الضریر،انظر حاشیۃ نصب الرایۃ ۲/ ۲۹۲
ابراہیم الحرانی ھوابن ابی حمید متہم بوضع الحدیث، انظر اللسان ۱/۲۸ نذیر احمد سعیدی
"
فتاویٰ رضويه جلد نہم باب الجنائز
مقاماتِ مظہریہ ص ۱۵۷ میں ہے :می فرمودند کہ حضرت خواجہ بہاءالدین نقشبند رحمۃ اﷲ علیہ فرمودند کہ فاتحہ خواندن پیشِ جنازہ ماوکلمہ طیب و آیت شریفہ بے ادبی است ایں دو۲ بیت بخوایندہ : ؎فرماتے ہیں کہ حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبند رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا: ہمارے جنازہ کےسامنے فاتحہ ،کلمہ طیب اورآیت شریفہ پڑھنا بے ادبی ہے یہ دو شعر پڑھنا: (۱) مفلسا نیم آمدہ در کوئےتو شیئاﷲ ازجمال روئے تو (۱) ہم مفلس آپ کی گلی میں آئے ہیں، خداکے لئے اپنے جمالِ رُخ کا کچھ صدقہ عطا ہو۔ (۲) دست بکشا جانبِ زنبیل ما آفرین بردست و بر پہلوئے تو (۲) ہماری جھولی کی طرف ہاتھ بڑھائیں ، آپ کے ہاتھ اور آپ کے پہلو پر آفرین ہو۔من ہم میگویم پیش جنازہ من ہمیں اشعار بخدانند: ؎میں بھی کہتاہوں میرے جنازہ کے سامنے یہی اشعار پڑھنا: (۱) وقدت علی الکریم بغیر زاد
من حسنات والقلب السلیم
(۲)فحملی الزاداقبح کل شیئ
اذاکان الوفود علی الکریم ۱؎ (۱) کریم کے دربار میں قلبِ سلیم اور نیکیوں کا کوئی توشہ لئے بغیر جارہا ہوں۔
(۲) کہ جب کسی کریم کے دربار میں حاضری ہو تو توشہ لے کر جانا بہت بُری بات ہے۔(ت)
(۱؎ مقاماتِ مظہریہ)
حضرت شاہ غلام علی دہلوی قدس سرہ العزیز مولانا خالد کردی کے مرشد برحق ہیں ضمیمہ مقاماتِ مظہریہ کے ص۲۹ میں مولانا خالد کردی اپنے قصیدہ میں فرماتے ہیں: ؎ (۱) وانالنی اعلی الماٰرب والمعنی
اعنی لقاء المرشد المفضالٖ (۱) مجھے سب سے بلند مقصد وآزرو عطافرمائی۔ یعنی بڑے فضل وکرم والے مرشد کی صحبت نصیب کی۔ (۲) من نور الآفاق بعد ظلامھا
وھدی جمیع الخلق بعدضلالٖ (۲) وہ جس نے تاریک آفاق روشن کردئے اور ساری گمراہ مخلوق کو ہدایت فرمائی۔ (۳) اعنی غلام علی القرم الذی
من لحظہ یحیی الرمیم البالی ۲؎ (۳) یعنی وُہ سردار عظیم غلام علی جس کی نظر سے بوسیدہ ہڈیوں میں جان پڑجاتی ہے۔
(۲؎ ضمیمہ مقاماتِ مظہریہ)
اور یہ مولانا خالد کروی علامہ شامی کے مرشد ہیں، اس کا ثبوت ردالمحتار جلد ۲صفحہ ۴۵۲ کی اس عبارت سے ہے:وقد بسطنا الکلام فی رسالتنا سل الحسام الہندی لنصرۃ سیدنا خالد النقشبدی۱ ؎۔اور ہم نے اپنے رسالہ''سل الحسام الہندی لنصرۃ سیدنا خالد النقشبندی ــ''میں تفصیل سے کلام کیا ہے۔(ت)
(۱؎ ردالمحتار کتاب النکاح قبیل فصل فی المحرمات ادارۃ الطباعۃ المصریۃ مصر ۲ /۲۷۶)
علامہ شامی کے دادا مرشد کے جنازہ میں عربی اشعار اور حضرت خواجہ بہاءالدین نقشبند رحمہ اﷲ تعالٰی کے جنازہ میں فارسی اشعار پڑھے گئے، ان اشعار کا پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ جائز ہے تو دلائل کیا ہیں؟ جو مکروہ تحریمی کہتے ہیں وہ علامہ شامی کی ردالمحتار ج۱ ص ۹۳۲ کے اس قول کو پیش کرتے ہیں : (قولہ کماکرہ الخ) قیل تحریما وقیل تنزیھا کما فی البحرعن الغایۃ وفیہ عنہا و ینبغی لمن تبع الجنازۃ ان یطیل الصمت وفیہ عن الظہیریۃ فان ارادان یذکراﷲتعالٰی یذکرہ فی نفسہ لقولہ تعالٰی انہ لایحب المعتدین ای الجاھرین بالدعاء وعن ابراہیم انہ کان یکرہ اذیقول الرجل وھویمشی معھا استغفروالہ غفراﷲلکم اھ قلت واذاکان ھذافی الدعاء والذکر فماظنک بالغناء الحدث فی ھذا الزمان۲؎۔ (جیسا کہ مکروہ ہے) کہا گیا تحریمی، اور کہا گیا تنزیہی ، جیسا کہ بحر میں غایہ کے حوالے سے ہے اوراسی میں اس کے حوالے سے یہ بھی ہے:جنازہ کے ساتھ چلنے والے کو طول سکوت اختیار کرنا چاہئے، اور اس میں ظہیریہ کے حوالے سے ہے۔ اگر اﷲ کا ذکر کرنا چاہے تو آہستہ کرے اس لئے کہ ارشادِ باری ہے : بے شک وُہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔یعنی وُہ جو بلند آواز سے دُعا کرتے ہیں--حضرت ابراہیم نخعی سے مروی ہے کہ جب وُہ جنازے کے ساتھ چلتے اور کوئی بولتا'' اس کےلئے استغفار کر و خداتمہاری مغفرت فرمائے'' توا نہیں ناگوار ہوتا اھ میں کہتاہوں جب دُعا وذکر کا یہ حکم ہے تو اس نغمہ زنی کے بارے میں تمہارا کیاخیال ہے جو اس زمانے میں پیدا ہوگئی ہے۔(ت)
(۲؎ ردالمحتار باب صلٰوۃ الجنائز مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المصریہ مصر ۱ /۵۹۸)
اس عبارت سے حضرت شاہ غلام علی وخواجہ بہاءالدین قدس سرہما نے جو فارسی و عربی کے اشعار اپنے جنازوں میں پڑھوائے اُن کی کراہت ثابت ہوتی ہے یا نہیں اور عدم کراہت و جواز اُن اشعارکی کیا وجہ ہے اور غناء حادثات کی کراہت کی کیا وجہ ہے، دونوں کا حکم بیان فرمائیں ، اور یہاں جنازہ کے ہمراہ یہ اشعار اردو کے بھی حضرات خوش الحانی سے پڑھتے ہیں اس اشعار کو پڑھیں یا نہیں
یا پنجتن بچانا جب جان تن سے نکلے نکلے تو یامحمد کہہ کر بدن سے نکلے
آوے گا میرا پیارا باجےگی دھن کی مُرلی جب وُہ مِرا سنوریاجوبن کے بن سے نکلے
میرے مریضِ دل کی امید ہے تویہ ہے زانو پہ اُس کے سر ہو اور جان تن سے نکلے
نکلے جنازہ میرا اُس یار کی گلی سے تو کلمہ شہادت سب کے دہن سے نکلے
کیا لایا تھا سکندر دنیا سے لے گیا کیا تھے دونوں ہاتھ خالی باہر کفن سے نکلے"
فتاویٰ رضويه جلد نہم باب الجنائز
فتاویٰ رضويه جلد نہم باب الجنائز
فتاویٰ رضويه جلد نہم باب الجنائز
فتاویٰ رضويه جلد نہم باب الجنائز
فتاویٰ رضويه جلد نہم باب الجنائز
فتاویٰ رضويه جلد نہم باب الجنائز
فتاویٰ رضويه جلد نہم باب الجنائز
فتاویٰ رضويه جلد نہم باب الجنائز
فتاویٰ رضويه جلد نہم باب الجنائز
فتاویٰ رضويه جلد نہم باب الجنائز
فتاویٰ رضويه جلد نہم باب الجنائز
فتاویٰ رضويه جلد نہم باب الجنائز
فتاویٰ رضويه جلد نہم باب الجنائز
فتاویٰ رضويه جلد نہم باب الجنائز
فتاویٰ رضويه جلد نہم باب الجنائز
فتاویٰ رضويه جلد نہم باب الجنائز
فتاویٰ رضويه جلد نہم باب الجنائز
فتاویٰ رضويه جلد نہم باب الجنائز
فتاویٰ رضويه جلد نہم باب الجنائز
فتاویٰ رضويه جلد نہم باب الجنائز
فتاویٰ رضويه جلد نہم باب الجنائز
فتاویٰ رضويه جلد نہم باب الجنائز
(۱) ایک جنازے کی نماز میں زید نے لوگوں کو جنہوں نے جوتوں میں سے پیروں کو نکال کر اور جُوتے کے اوپرپَیر رکھ کر نماز پڑھنا چاہا، روکاکہ پَیر جوتوں سے مت نکالو جُوتے پہنے ہوئے نماز درست ہے۔ عمرو نے ایک شخصیّت کے الفاظ میں کہا کہ کوئی کہتاہے جوتے پہنے ہوئے نماز پڑھو، جوتے سب اتار ڈالیں۔ چنانچہ بعض نے زید کے کہنے پر عمل کیا بعض نےعمرو کے کہنے پر۔ بعد نماز بحث پیش آئی۔زید نے تحریری جواب میں کہ رسول خدا نے نماز میں جوتا اتارا، مقتدیوں نے بھی اتار ا،پیغمبر صاحب نے دریافت کیا تم نے جوتے کیوں اتارے؟ جواب دیا کہاتباع کیا۔ آپ نے فرمایامجھ سےجبرئیل علیہ السلام نے کہا کہ جوتے میں ناپاکی ہے۔پس معلوم کرلینا چاہئے،عمرو کو ایسا کہنا خلاف تھا اس لئے کہ وہ کیسے برجستہ الفاظ صدر کہہ سکتا تھا اس لئے ناپاکی کا ثبوت نہیں رکھتا تھا، مقامی حالت میں جہاں جوتے اتار کر نماز پڑھنے کے واسطے عمرو نے کہا تھا یہ تھی کہ وہاں گھوڑے وغیرہ پیشاب کرتے ہیں، جوتے پہنئے ہوئے جسقدر لوگ تھے اُن کے جوتے خشک تھے، پس اس حالت میں شرعاً عمرو کا کہنا صحیح سمجھا جائے گا یا زید کا؟
(۲) عمرو مذکور نے ایک مرتبہ ایسا بھی کیا کہ نمازِ جنازہ دوبار پڑھائی، زید نے اس کو مکروہ کہا، اور جب عمرو کی جانب سے لوگوں نے بحث کی تواُس نےعلاوہ مکروہ کے آثارِ فتنہ اوربدعت بھی ثابت کیا ، کیا زید کا کہنا حق ہے؟
"
فتاویٰ رضويه جلد نہم باب الجنائز
فتاویٰ رضويه جلد نہم باب الجنائز
فتاویٰ رضويه جلد نہم باب الجنائز
فتاویٰ رضويه جلد نہم باب الجنائز
فتاویٰ رضويه جلد نہم باب الجنائز
فتاویٰ رضويه جلد نہم باب الجنائز