Arguments: ماخوذ از شرح المطالب فی مبحث ابی طالب

ابوطالب کے کفر پر وفات کے دلائل
(ماخوذ از شرح المطالب فی مبحث ابی طالب)
آیتِ ہدایت کا نزول کہ مفسرین کا اس پر اجماع ہے کہ آیت “انك لا تهدى من احببت” (سورہ القصص: ٥٦) ابوطالب کے حق میں اس وقت نازل ہوئی جب انہوں نے حضور ﷺ کے اصرار کے باوجود کلمہ نہیں پڑھا 
نزع کے وقت کلمہ سے صاف انکار اور آخری الفاظ میں یہ کہنا کہ وہ “عبدالمطلب کے دین پر ہے”، جس کے بعد ان کا انتقال ہوا ۔
مشرکین کے لیے دعائے مغفرت کی ممانعت کہ جب حضور ﷺ نے ابوطالب کے لیے استغفار کرنا چاہا تو اللہ تعالیٰ نے سورہ التوبہ کی آیت ١١٣ نازل فرما کر منع کر دیا کیونکہ وہ کفر کی حالت میں فوت ہوئے تھے۔
آیتِ اعراض کا ابوطالب کے بارے میں ہونا کہ وہ دوسروں کو حضور ﷺ کو تکلیف دینے سے تو روکتے تھے مگر خود ایمان لانے سے دور رہتے تھے (سورہ الانعام: ٢٦
عذابِ جہنم میں تخفیف کی روایت کہ اگر وہ مومن ہوتے تو سرے سے جہنم میں نہ جاتے، لیکن حضور ﷺ کی شفاعت سے انہیں آگ کے گہرے حصے سے نکال کر “ضحضاح” (ٹخنوں تک کی آگ) میں رکھا گیا
وراثت سے محرومی کا شرعی فیصلہ کہ حضرت علی اور حضرت جعفر رضی اللہ عنہما ابوطالب کے وارث نہیں بنے، کیونکہ کافر اور مسلمان ایک دوسرے کے وارث نہیں ہو سکتے
غیر مسلم بیٹوں کا وارث بننا کہ ابوطالب کی وراثت ان کے ان بیٹوں (عقیل اور طالب) کو ملی جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے ۔
تدفین کا حکم اور جنازہ نہ پڑھنا کہ جب ابوطالب کا انتقال ہوا تو حضور ﷺ نے حضرت علی سے فرمایا کہ “جاؤ اپنے بوڑھے گمراہ چچا کو دفن کر دو” اور ان کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھی ۔
امام اعظم ابوحنیفہ کی تصریح کہ انہوں نے اپنی کتاب ‘الفقہ الاکبر’ میں واضح طور پر لکھا کہ ابوطالب کا انتقال کفر پر ہوا ۔
محض معرفت (پہچاننے) کا ایمان نہ ہونا کہ ابوطالب دل سے حضور ﷺ کو سچا جانتے تھے مگر زبان سے اقرار اور شرعی جھکاؤ نہ ہونے کی وجہ سے وہ مومن نہیں کہلائے، بالکل ویسے ہی جیسے اہل کتاب حضور ﷺ کو پہچانتے تھے 
صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کا بیان کہ جب ان کے والد ابوقحافہ مسلمان ہوئے تو انہوں نے عرض کی کہ مجھے ابوطالب کے اسلام لانے پر زیادہ خوشی ہوتی کیونکہ اس سے حضور ﷺ کو زیادہ خوشی ملتی، جو اس بات کی دلیل ہے کہ ابوطالب مسلمان نہیں ہوئے تھے 
شفاعتِ صغریٰ کا مخصوص ہونا کہ حضور ﷺ کی شفاعت ان کے لیے صرف عذاب میں کمی کا باعث بنی، جبکہ نجات کی شفاعتِ کبریٰ صرف مومنین کے لیے ہے 
دماغ کا کھولنا کہ ابوطالب کو آگ کی ایسی جوتیاں پہنائی جائیں گی جن سے ان کا دماغ کھولے گا، یہ عذابِ جہنم ان کے کفر کی سزا ہے۔
ابوطالب کے اپنے اشعار کہ وہ خود تسلیم کرتے تھے کہ حضور ﷺ کا دین بہترین ہے لیکن وہ ملامت اور عار کے خوف سے اسے قبول نہیں کر رہے 
جمہورِ اہل سنت کا اتفاق کہ ابوطالب کا خاتمہ اسلام پر نہیں ہوا اور اس کے خلاف تمام روایات ضعیف یا من گھڑت ہیں ۔
امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا ابوطالب کے بارے میں کفر کا حکم دینا جب انہوں نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے ان کے بارے میں بات کی
امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کی روایت کہ ابوطالب کفر پر مرے، جس سے رافضیوں کے اس دعوے کی تردید ہوتی ہے کہ اہل بیت انہیں مومن مانتے تھے ۔
آیتِ اصحاب الجحیم کہ ابوطالب کو ان لوگوں میں شمار کیا گیا جن کے لیے استغفار سے منع کیا گیا کیونکہ وہ دوزخی ثابت ہو چکے تھے (سورہ التوبہ: ١١٣) ]۔
کفر پر ثابت قدمی کا عذاب کہ چونکہ ابوطالب کے پاؤں ملتِ کفر پر جمے رہے، اس لیے عذاب بھی پاؤں پر مسلط کیا گیا
ائمہ و محدثین کا اجماع کہ ابوطالب کے اسلام کے بارے میں مروی قصے سند کے لحاظ سے ناقابلِ قبول اور باطل ہیں 
ابوطالب کے کفر پر اتفاق کرنے والے اکابرین (ماخوذ از شرح المطالب)
کبار صحابہ کرام: امیر المومنین ابوبکر صدیق، امیر المومنین عمر فاروق، امیر المومنین علی مرتضیٰ، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت ابوہریرہ، حضرت ابوسعید خدری، حضرت جابر بن عبداللہ انصاری 
تابعین و ائمہِ اہل بیت: امام زین العابدین علی بن حسین، امام محمد باقر، امام سعید بن مسیب 
ائمہ اربعہ اور کبار محدثین: امام اعظم ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن ہنبل، امام بخاری، امام مسلم، امام نسائی، امام ابن ماجہ
مفسرین اور فقہاء: امام ابن حجر عسقلانی، امام قسطلانی، امام جلال الدین سیوطی، امام نووی، علامہ عینی، شیخ محقق عبدالحق محدث دہلوی، اور امام احمد رضا خان بریلوی