اسلامی عقائد بابت ذات و صفات باری تعالیٰ

یہ تو شانیں بہت رفیع ہیں، جن پر رفعت عزت وجاہت ختم ہے۔ صلوات اﷲ تعالیٰ و سلامہ علیہم مسلمان ماں باپ کا کچّا بچہ جو حمل سے گر جاتا ہے اُس کے لیے حدیث میں فرمایا: کہ ”روزِ قیامت اﷲ عزوجل سے اپنے ماں باپ کی بخشش کے لیے ایسا جھگڑے گا جیسا قرض خواہ کسی قرض دار سے، یہاں تک کہ فرمایا جائے گا:
((أَیُّـھَا السِّقْطُ المُرَاغِمُ رَبَّـہٗ)).(1)
”اے کچے بچے! اپنے رب سے جھگڑنے والے! اپنے ماں باپ کا ہاتھ پکڑ لے اور جنت میں چلا جا۔”
خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا، مگر ایمان والوں کے لیے بہت نافع اور شیاطین الانس کی خبا ثت کا دافع تھا، کہنا یہ ہے کہ قومِ لوط پر عذاب قضائے مُبرَمِ حقیقی تھا، خلیل اﷲ علیہ الصّلاۃ والسلام اس میں جھگڑے تو اُنھیں ارشاد ہوا:
”اے ابراہیم! اس خیال میں نہ پڑو … بیشک اُن پر وہ عذاب آنے والاہے جو پھرنے کا نہیں۔”
اور وہ جو ظاہر قضائے معلّق ہے، اس تک اکثر اولیا کی رسائی ہوتی ہے، اُن کی دُعا سے، اُن کی ہمّت سے ٹل جاتی ہے اور وہ جو متوسّط حالت میں ہے، جسے صُحف ِملائکہ کے اعتبا ر سے مُبرَم بھی کہہ سکتے ہیں، اُس تک خواص اکابر کی رسائی ہوتی ہے۔ حضور سیّدنا غوثِ اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اسی کو فرماتے ہیں: ”میں قضائے مُبرَم کو رد کر دیتا ہوں” (3)، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1۔۔۔۔۔۔ عن علي قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ((إنّ السقط لیراغم ربہ إذا أدخل أبویہ النار، فیقال: أیہا السقط المراغم ربہ أدخل أبویک الجنۃ، فیجرھما بسررہ حتی یدخلھما الجنۃ)). قال أبو علي: یراغم ربہ، یغاضب. ”سنن ابن ماجہ”، أبواب ما جاء في الجنائز، باب ما جاء فیمن أصیب بسقط، الحدیث: ۱۶۰۸، ج۲، ص۲۷۳.
2۔۔۔۔۔۔ ( یٰاِ بْرٰہِیمُ أَعْرِضْ عَنْ ہٰذَا إِنَّہ، قَدْ جَآءَ أَمْرُ رَبِّکَ وَإِنَّہُمْ اٰتِیْہِمْ عَذَابٌ غَیْرُ مَرْدُوْدٍ) پ۱۲، ھود: ۷۶.
3۔۔۔۔۔۔ حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے فرمان ”میں قضائے مبرم کو رد کردیتا ہوں ” پر کلا م کرتے ہوئے امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی الشیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ تعالی علیہ اپنے ایک مکتوب میں فرماتے ہیں: (بدان ارشدک اللہ تعالی سبحانہ قضا بر دو قسم است، قضاء معلق وقضاء مبرم در قضاء معلق احتمال تغییر وتبدیل است، ودر قضاء مبرم تغییر وتبدیل را مجال نیست قال اللہ سبحانہ وتعالی: (مَا یُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَیَّ) [پ۲۶، ق: ۲۹] این در قضاء مبرم است، ودر قضاء معلق میفرماید: (یَمْحُوا اللہُ مَا یَشَآءُ وَیُثْبِتُ وَعِنْدَہٗ أُمُّ الْکِتَابِ) [پ۱۳، الرعد: ۳۹] حضرت قبلہ گاہی ام قدّس سرّہ میفرمودند کہ حضرت سید محی الدین جیلانی قدّس سرّہ در بعضی از رسائل خود نوشتہ اند کہ در قضاء ِ مبرَم ہیچکس را مجال نیست کہ تبدیل بدہد مگر مرا کہ اگر خواہم انجا ہم

تصرّف بکنم، وازین سخن تعجّب بسیار میکردند واستبعاد میفرمودند، واین نقل مدتہا در خزینہ ذہنِ این فقیر بود تاآنکہ حضرتِ حق سبحانہ وتعالی باین دولتِ عظمے مشرف ساخت، روزے در صد ودفع بلیّہ بودم کہ بہ بعضی از دوستان نامزد شدہ بود دوران وقت التجا وتضرّع ونیاز وخشوعِ تمام داشتم ظاہر شد کہ در لوح محفوظ قضاء این امر معلق بامرے نیست ومشروط بشرطے ، نہ یک گونہ یاس وناامیدی دست دادوسخنِ حضرت سید محی الدین قدّس سرّہ بیاد آمد مرّۃً ، ثانیۃ باز ملتجی ومتضرع گشت دراہِ عجز ونیاز پیش گرفتہ متوجّہ شد بمحض فضل وکرم ظاہر ساختند کہ قضاءِ معلق بردوگونہ است، قضائے است کہ تعلیق او را در لوح محفوظ ظاہر ساختہ اندو ملائکہ را بر ان اطلاع دادہ، وقضائیکہ تعلیقِ اونزدِ خدا ست جلّ شانُہ، وبس ودر لوح محفوظ صورتِ قضاءِ مبرم دار،(کہ بظاہر در لوح محفوظ مشروط بامرے نساختہ اند بلکہ مطلق گذاشتہ لیکن نفس الامر مقید بقید ومشروط بشرط است۱۲ حاشیہ) واین قسم اخیر از قضاء معلّق نیز احتمالِ تبدیل دارد، در رنگ قسم اول از انجا معلوم شد کہ سخنِ سید مصروف با ینقسم اخیر است کہ صورت قضاء مبرم وارد نہ بقضاء کہ بحقیقت مبرم است کہ تصرف وتبدیل در ان محالست عقلاً وشرعاً کما لا یخفی، والحق کہ کم کسے رابر حقیقتِ آ ن قضاء اطلاع است فکیف کہ در انجا تصرّف نماید، وبلیّہ کہ متوجہِ آن دوست شدہ بود دران قسم اخیر یافت ومعلوم شد کہ حضرت حق سبحانہ وتعالی دفع آن بلیّہ فرمود). ”مکتوبات إمام رباني”، فارسی، مکتوب نمبر ۲۱۷، ج۱، ص۱۲۳۔۱۲۴.
یعنی: جان لے اللہ تجھے ہدایت عطا فرمائے اے پیارے بھائی! قضاء کی دو قسمیں ہیں : قضاء ِمعلق اور قضاء ِمبرم۔ قضاء ِمعلق یہ ہے کہ اس میں تبدیلی کا احتمال ہوتاہے جبکہ قضاء ِمبرم وہ ہے جس میں تبدیلی کی گنجاءش نہیں ، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: ترجمہ کنزالایمان:میرے یہاں بات بدلتی نہیں ۔ یہ قضائے مبرم کی مثال ہے جبکہ قضائے معلق کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے :ترجمہ کنز الایمان: اللہ جو چاہے مٹاتا اور ثابت کرتا ہے اور اصل لکھا ہوا اسی کے پاس ہے۔ میرے پیر بزرگوار قدّس سرہ فرماتے تھے کہ حضرت پیر سید محی الدین جیلانی قدس سرہ الربانی نے اپنے بعض رسالوں میں تحریر کیا کہ قضائے مبرم میں کسی کو تبدیلی کرنے کا اختیار نہیں مگر مجھے اختیار دیا گیا ہے کہ اگر چاہوں تو اس میں تصرف کروں۔ ان کی اس بات سے میرے پیر بزرگوار بہت تعجب کرتے تھے اور اس کو بعید جانتے تھے اور یہ بات اس فقیر (شیخ احمد فاروقی سرہندی) کے ذہن میں کافی مدت تک رہی یہاں تک کہ حق تعالی نے مجھے بھی اس دولت عظمیٰ سے مشرف فرمادیا(یعنی شیخ احمد فاروقی سرہندی علیہ الرحمہ کی دعا سے بھی قضائے مبرم میں تبدیلی ہوگئی ،مترجم )، چنانچہ ایک دن میرے کسی دوست کے ساتھ حاکم وقت کی طرف سے کوئی مسئلہ پیش آگیا تو میں نے اس کے دفع کے لئے گریہ وزاری کی اور خوب خشوع وخضوع کیا تو جانب ِحق تعالی کی طرف سے بطورِ کشف والہام مجھے معلوم ہوا کہ یہ معاملہ لوح ِ محفوظ میں معلق نہیں کہ