اسلامی عقائد بابت ذات و صفات باری تعالیٰ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اسی کی نسبت حدیث میں ارشاد ہوا:
((إِنَّ الدُّعَاءَ یَرُدُّ القَضَاءَ بَعْدَ مَا اُبْرِمَ)).(1)
”بیشک دُعا قضائے مُبرم کو ٹال دیتی ہے۔”

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

کسی چیز سے بآسانی ٹل جائے، پس مجھے ایک قسم کی مایوسی ہوئی تو پیر دستگیر سید محی الدین قدس سرہ النورانی کا ارشاد دوبارہ یاد آگیا تو میں نے دوبارہ حق تعالی کی بارگاہ میں آہ وزاری اور عجزوانکساری کی تو مجھے محض فضل وکرم سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ قضائے معلق کی دو قسمیں ہیں ایک قسم قضائے معلق کی وہ ہے کہ اس کی تعلیق لوح محفوظ میں ظاہر کی گئی ہے اور فرشتگانِ الہی کو اس کی اطلاع دی گئی ہے اور دوسری قسم قضائے معلق کی وہ ہے کہ اس کی تعلیق خدائے بزرگ وبرتر کے نزدیک ہے اور لوح محفوظ میں وہ قضائے مبرم کی صورت رکھتی ہے،(در حقیقت یہ قسم نہ تو مطلق معلق ہے اور نہ مطلق مبرم بلکہ مشابہ بہ مبرم ہے جو کہ بظاہر لوح محفوظ میں مطلق نظر آتی ہے لیکن حقیقت میں مشروط بشرط ہوتی ہے اور بسا اوقات یہ خاصانِ خدا کی دعاؤں سے ٹل جاتی ہے، حاشیہ بر مکتوب بتصرف ما) اور یہ بھی قضائے معلق کی طرح تبدیلی کا احتمال رکھتی ہے۔ پس اس تقریر سے معلوم ہوا کہ حضرت پیر دستگیر علیہ الرحمہ کا ارشاد(میں قضائے مبرم کو رد کردیتا ہوں، مترجم) اس قسم اخیر(یعنی مشابہ بہ مبرم) کے بارے میں ہے نہ کہ مبرم حقیقی کے بارے میں، کیونکہ اس(مبرم حقیقی) میں تصرف وتبدیلی عقلی و شرعی لحاظ سے محال ہے، حق بات یہ ہے کہ بہت کم لوگ ہیں کہ جو اس قضاء(مشابہ بہ مبرم) کی خبر رکھتے ہیں اور کیونکر رکھ سکتے ہیں جبکہ اس میں تصرف نہیں ہوپاتا ، اور میرے دوست کو جو آزمائش پیش آئی تھی اسی کے سبب سے میں نے اس قسم کو دریافت کیا اور حضرت حق سبحانہ وتعالی نے اس فقیر کی دعا سے اس کی آزمائش کو دور کردیا۔
1۔۔۔۔۔۔ ”کنز العمال”، کتاب الأذکار، ج۱، الجزء الثاني، ص۲۸، الحدیث:۳۱۱۷. بألفاظ متقاربۃ.
قال الإمام أحمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن في ”المعتمد المستند” حاشیہ نمبر ۷۷ ، ص۵۴ ۔۵۵: (أقول: أخرج أبو الشیخ في کتاب الثواب عن أنس بن مالک رضي اللہ تعالی عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم: ((أکثر من الدعائ، فإنّ الدعاء یردّ القضاء المبرم))، وأخرج الدیلمي في ”مسند الفردوس” عن أبي موسی الأشعري رضي اللہ تعالی عنہ وابن عساکر عن نمیر بن أوس الأشعري مرسلًا کِلاھما عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: ((الدعاء جند من أجناد اللہ مجند یرد القضاء بعد أن یبرم)). وتحقیق المقام علی ما ألہمني الملک العلام أنّ الأحکام الإلہیۃ التشریعیۃ کما تأتي علی وجہین: (۱) مطلق عن التقیید بوقت کعامتہا و(۲) مقید بہ کقولہ تعالی: (فَإِنْ شَہِدُوْا فَأَمْسِکُوْہُنَّ فِی الْبُیُوتِ حَتّٰی یَتَوَفّٰہُنَّ الْمَوْتُ أَوْ یَجْعَلَ اللہُ لَہُنَّ سَبِیلْاً)، پ۴، النساء: ۱۵، فلما نزل حدّ الزنا قال صلّی اللہ تعالی علیہ وسلم: ((خذوا عنّي قد جعل اللہ لہنّ سبیلا).الحدیث.
رواہ ”مسلم” کتاب الحدود، باب حد الزنا، الحدیث: ۱۶۹۰، ص۹۲۸ وغیرہ عن عبادۃ رضي اللہ تعالی عنہ.

والمطلق یکون في علم اللہ مؤبدًا أو مقیدًا، وھذا الأخیر ہوالذي یأتیہ النسخ فیظن أنّ الحکم تبدل؛ لأنّ المطلق یکون ظاہرہ التأبید حتی سبق إلی بعض الخواطر أنّ النسخ رفع الحکم، وإنّما ہو بیان مدتہ عندنا وعند المحققین، کذلک الأحکام التکوینیۃ سواء بسوائ، فمقید صراحۃ کأن یقال لملک الموت علیہ الصلاۃ والسلام:اقبض روح فلان في الوقت الفلاني إلاّ أن یدعو فلان، مطلق نافذ في علم اللہ تعالی وہو المبرم حقیقۃ، ومصروف بدعاء مثلا وہو المعلق الشبیہ بالمبرم، فیکون مبرماً في ظن الخلق لعدم الإشارۃ إلی التقیید معلّقا في الواقع، فالمراد في الحدیث الشریف ہو ھذا، أمّا المبرم الحقیقي فلا رادّ لقضائہ ولا معقب لحکمہ وإلاّ لزم الجھل، تعالی اللہ عن ذلک علوا کبیرا، فاحفظ ھذا فلعلک لا تجدہ إلاّ منّا، وباللہ التوفیق. ۱۲ إمام أھل السنۃ رضی اللہ تعالی عنہ.
یعنی: (میں کہتا ہوں): ابو الشیخ نے کتاب الثواب میں انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” دعا کی کثرت کرو اس لئے کہ دعا قضاء مبرم کو ٹال دیتی ہے”۔ اوردیلمی نے ”مسند الفردوس” میں ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ سے اور ابن عساکر نے نمیر بن اوس اشعری رضی اللہ تعالی عنہ سے مرسلا دونوں نے نبی علیہ السلام سے روایت کیا فرمایا: ”دعا اللہ کے لشکروں میں سے ایک ساز وسامان والا لشکر ہے جو قضاء کو مبرم ہونے کے بعد ٹال دیتا ہے”۔ اور اس مقام کی تحقیق اس طور پر جو مجھے ملک علام (اللہ تبارک وتعالی) نے الہام کی وہ یہ ہے کہ احکامِ الہیہ تشریعیہ جیسا کہ آگے آئیں گے دو وجہوں پر ہیں پھلا مطلق جس میں کسی وقت کی قید نہیں جیسے عام احکام (دوسرا) وقت کے ساتھ مقید جیسے اللہ تعالی کا فرمان:ترجمہ کنزالایمان، سورۃ النساء آیت ۵۱: پھر اگر وہ گواہی دے دیں تو ان عورتوں کو گھر میں بند رکھو یہاں تک کہ انہیں موت اٹھا لے یا اللہ ان کی کچھ راہ نکالے۔ تو جب قرآن میں زنا کی حد نازل ہوئی حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھ سے لے لو بیشک اللہ نے ان عورتوں کے لئے سبیل مقرر فرمائی ۔ الحدیث۔ اس کو روایت کیا مسلم وغیرہ نے عبادہ رضی اللہ عنہ سے، اور مطلق علم الٰہی میں یا تو مؤبد ہوتا ہے یعنی ہر زمانے کے لئے (یامقید) یعنی کسی خاص زمانے کے لئے اور یہی اخیر حکم وہ ہے جس میں نسخ آتا ہے، گمان یہ ہوتا ہے کہ حکم بدل گیا اس لئے کہ مطلق (جس میں کسی وقت کی قید نہ ہو) کا ظاہر مؤبد ہے یعنی ہمیشہ کے لئے ہونا ہے یہا ں تک کہ کچھ اذہان کی طرف اس خیال نے سبقت کی کہ نسخ حکم کو اٹھا دینے کا نام ہے اور ھمارے نزدیک اور محققین کے نزدیک وہ حکم کی مدت بیان کرنا ہے، اور احکام تکوینیہ بھی اسی طرح برابر (یعنی دو قسموں پر) ہیں تو ایک وہ جو صراحۃً مقید ہو جیسے ملک الموت علیہ الصلوۃ والسلام سے کہا جائے کہ فلاں کی روح فلاں وقت میں قبض کر مگر یہ کہ فلاں اس کے حق میں دعا کرے( تو اس وقت میں قبض نہ کر)، اور دوسرا مطلق ہے جو علمِ الٰہی میں نافذ ہونے والا ہے اور یہی حقیقۃً مبرم ہے ،اور قضاء کی ایک قسم وہ ہے جو مثلاً کسی کی دعا سے ٹل جائے اور وہ معلق مشابہ مبرم ہے تو (یہ قسم) مخلوق کے گمان میں مبرم ہوتی ہے اس لئے کہ اس میں قید وقت کا اشارہ نہیں اور واقع میں (کسی شرط پر) معلق ہوتی ہے اور مراد حدیث شریف میں یہی ہے، رہا مبرم حقیقی تو (وہ مراد نہیں) اس لئے کہ اللہ تعالی کی قضاء ِ(مبرم) کو کوئی ٹالنے والا نہیں اور کوئی اس کے حکم کو باطل کرنے والا نہیں ورنہ جھل باری لازم آئے گا اللہ تعالی اس سے بہت بلند ہے اس کو یاد رکھو اس لئے کہ شاید یہ تمہیں ھمارے سوا کسی اور سے نہ ملے۔ اللہ ہی توفیق دینے والا ہے ۔ ۱۲
وانظر لتفصیل ہذہ المسألۃ: ”أحسن الوعاء لآداب الدعاء” و”ذیل المدعا لأحسن الوعاء”، ص۱۲۷۔۱۳۱۔