اسلامی عقائد بابت ذات و صفات باری تعالیٰ

میں ہر سُنّی مسلمان کے لیے ممکن بلکہ واقع۔ (1) رہا قلبی دیدار یا خواب میں، یہ دیگر انبیا علیہم السلام بلکہ اولیا کے لیے بھی حاصل ہے۔(2) ھمارے امامِ اعظم (3) رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو خواب میں سو ۱۰۰ بار زیارت ہوئی۔ (4)
عقیدہ (۲۷): اس کا دیدار بلا کیف ہے، یعنی دیکھیں گے اور یہ نہیں کہہ سکتے کہ کیسے دیکھیں گے، جس چیز کو دیکھتے ہیں اُس سے کچھ فاصلہ مسافت کا ہوتا ہے، نزدیک یا دور، وہ دیکھنے والے سے کسی جہت میں ہوتی ہے، اوپر یا نیچے، دہنے یا بائیں، آگے یا پیچھے، اُس کا دیکھنا اِن سب باتوں سے پاک ہوگا۔(5) پھر رہا یہ کہ کیونکر ہوگا؟ یہی تو کہا جاتا ہے کہ کیونکر کو یہاں دخل

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1۔۔۔۔۔۔ (وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ إِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ) پ۲۹، القیامۃ: ۲۲۔۲۳.عن أبي ہریرۃ، أنّ الناس قالوا: یا رسول اللہ! ھل نری ربنا یوم القیامۃ؟ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:((ھل تضارون في القمر لیلۃ البدر؟)) قالوا: لا یا رسول اللہ، قال: ((فھل تضارون في الشمس لیس دونہا سحاب؟)) قالوا:لا یا رسول اللہ، قال: ((فإنکم ترونہ کذلک)).
”صحیح البخاري”، کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالٰی (وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ… إلخ) الحدیث: ۷۴۳۷، ج۴، ص۵۵۱.
في ”الفقہ الأکبر”، ص۸۳: (واللہ یری في الآخرۃ، ویراہ المؤمنون وہم في الجنۃ بأعین رؤوسہم).
وفي”شرح النووي”: (اعلم أنّ مذہب أھل السنۃ بأجمعہم أنّ رؤیۃ اللہ تعالی ممکنۃ غیر مستحیلۃ عقلا، وأجمعوا أیضا علی وقوعہا في الآخرۃ، وأنّ المؤمنین یرون اللہ تعالی دون الکافرین، وزعمت طوائف من أھل البدع:المعتزلۃ والخوارج وبعض المرجئۃ، أنّ اللہ تعالی لا یراہ أحد من خلقہ، وأنّ رؤیتہ مستحیلۃ عقلا، وھذا الذی قالوہ خطأ صریح وجھل قبیح، وقد تظاہرت أدلۃ الکتاب والسنۃ وإجماع الصحابۃ فمن بعدہم من سلف الأمۃ علی إثبات رؤیۃ اللہ تعالی في الآخرۃ للمؤمنین، ورواہا نحو من عشرین صحابیا عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، وآیات القرآن فیہا مشہورۃ).
(”شرح النووي”، کتاب الإیمان، باب إثبات رؤیۃ المؤمنین في الآخرۃ ربہم سبحانہ وتعالی: ج۱، ص۹۹).
2۔۔۔۔۔۔ وفي ”المعتقد المنتقد”، ص۵۸: (وأمّا رؤیاہ سبحانہ في المنام۔۔۔۔۔۔ جاءزۃ عند الجمھور، لأنّہا نوع مشاھدۃ بالقلب، ولا استحالۃ فیہ، وواقعۃ کما حکیت عن کثیر من السلف منھم أبو حنیفۃ وأحمد بن حنبل رضي اللہ تعالی عنھما، وذکر القاضي الإجماع علی أنّ رؤیتہ تعالی مناماً جاءزۃ وإن کان بوصف لا یلیق بہ تعالی)، ملتقطاً.
3۔۔۔۔۔۔ ابو حنیفہ نعمان بن ثابت۔
4۔۔۔۔۔۔ في”منح الروض الأزہر”، ص۱۲۴:(رؤیۃ اللہ سبحانہ وتعالی في المنام، فالأکثرون علی جوازہا من غیر کیفیۃ وجہۃ وہیئۃ أیضا في ھذا المرام، فقد نقل أنّ الإمام أبا حنیفۃ قال: رأیت رب العزۃ في المنام تسعاً وتسعین مرۃ، ثم رآہ مرۃ أخری تمام المائۃ و قصتہا طویلۃ لا یسعہا ھذا المقام).
5۔۔۔۔۔۔ في”منح الروض الأزہر”، ص۸۳: (واللہ یری في الآخرۃ)أي: یوم القیامۃ، (ویراہ المؤمنون وہم في الجنۃ بأعین رؤوسہم بلا تشبیہ) أي: رؤیۃ مقرونۃ بتنزیہ لا مکنونۃ بتشبیہ (ولا کیفیۃ) أي: في الصورۃ (ولا کمیۃ) أي: في الہیئۃ المنظورۃ