تعارف مضمون امام احمد رضا، ان کے ہم مسلک اور انگریز

Available in:
English

تعارف مضمون

امام احمد رضا، ان کے ہم مسلک اور انگریز

مصنف: صوبیدار جلال الدین ڈیروی

متحدہ ہندوستان کی تاریخ میں مذہبی قیادت ہمیشہ سے دو واضح گروہوں میں بٹی رہی ہے جہاں ایک طرف وہ مخلص علماء و مشائخ تھے جنہوں نے غیر مسلموں کی سازشوں کو بھانپتے ہوئے مسلمانوں کی انفرادیت اور اپنے زورِ بازو پر بھروسہ کرنے کا درس دیا۔ بدقسمتی سے، تاریخ نگاری کے نام پر ہمیشہ سے حقائق کو مسخ کرنے کی کوششیں کی گئیں تاکہ اپنے گروہ کی ساکھ بچانے کے لیے دوسروں کی خدمات پر پردہ ڈالا جا سکے۔ مورخ کی اصل ذمہ داری سچ لکھنا ہے، لیکن یہاں سیاسی مفادات اور مذہبی تعصبات کی خاطر نئی تاریخ رقم کرنے سے بھی گریز نہیں کیا گیا، جس کا بنیادی مقصد صرف اپنے اکابرین کے نام نہاد کارناموں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا تھا۔
اسی تعصب اور سیاسی و مذہبی اختلاف کی بنیاد پر دیوبندی، وہابی اور دیگر بدمذاہب کی جانب سے اہل سنت و جماعت، بالخصوص امام احمد رضا خان فاضل بریلوی اور ان کے ہم مسلک علماء پر انگریزوں کے ایجنٹ ہونے جیسے گھناؤنے اور بے بنیاد الزامات لگائے گئے۔ یہ الزامات تحریکِ خلافت اور تحریکِ پاکستان کے دوران کبھی نہیں سنے گئے مگر پاکستان کے قیام کے بعد یہ الزامات سامنے آنے لگے۔مگر ان کا کوئی ٹھوس تاریخی ثبوت کبھی پیش نہیں کیا جا سکا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ان بے سروپا الزامات کی تشہیر اس لیے کی گئی تاکہ نئی نسل کو اصل حقائق سے دور رکھ کر گمراہ کیا جا سکے، حالانکہ ان الزامات کا مقصد صرف مذہبی بغض نکالنا تھا جس کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ حالانکہ دیوبندی اور وہابی فرقے نہ صرف انگریزوں نے بنائے بلکہ ان کی ترویج و اشاعت میں بھی پوری مدد کی۔
دوسری جانب، جن تحریکوں کو زبردستی اسلامی اور جہادی رنگ دے کر نصابی کتابوں میں پڑھایا جاتا رہا، ان کے اپنے اکابرین کے اعترافات ہی ان کی حقیقت واضح کرنے کے لیے کافی ہیں۔ مثال کے طور پر تحریکِ بالاکوٹ کے بارے میں خود ان کے اپنے بڑے رہنماؤں نے اسے ایک سیکولر اور جمہوری تحریک قرار دیا جس میں ہندوؤں کو شامل کرنے کی خاطر اسلامی حکومت کے قیام تک سے دستبرداری کا اظہار کیا گیا تھا۔ یہ ایک تاریخی المیہ ہے کہ ان مصلحت پسندوں نے تو انگریزوں سے مراعات حاصل کیں اور سکھوں کے خلاف ان کی مدد لی، مگر الزام ان حق پرستوں پر لگایا گیا جنہوں نے ہر موقع پر مسلمانوں کو غیروں کی بیساکھیوں کے بجائے اپنی متحدہ قوت پر بھروسہ کرنے کی دعوت دی